دہلی-۱۶/دسمبر کی شب میں ایک طالبہ کے ساتھ جو کچھ
ہوا، اس شرم ناک اور گھناونے واقعہ کی مذمت میں عوام کا رد عمل پورے
شباب پر ہے،اس واقعہ پر الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا
اپنی پوری توانائی لگائے ہوئے ہے۔ طلباء، طالبات، نوجوان
مرد وخواتین میدان سے لے کر ایوانِ سیاست تک اپنے غم وغصہ
کا اظہار کررہے ہیں۔ لڑکی کی موت کے بعد بھی یہ
سلسلہ جاری ہے۔ مجرموں کو سخت سزا کی مانگ کی جارہی
ہے کہ ان کو پھانسی دی جائے یا تیس سال کی سزا ہو یا
قوتِ مردانہ سے محروم کردئیے جائیں۔
ماحول ایسا ہوگیا ہے کہ گویا
تمام اہم مسائل حل ہوگئے ہیں اوراب صرف یہی ایک مسئلہ رہ
گیا ہے۔ ایک طرف احتجاج ومذمت پورے شباب پر ہے تو دوسری
طرف آبروریزی اور اجتماعی ریپ اور خواتین پر زیادتی
کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ڈھائی اور تین سال کی
بچیوں سے لے کر عمر رسیدہ خواتین تک اس جرائم کا شکار ہورہی
ہیں۔
درحقیقت معاشرہ میں برائی،
بدکاری اور جرائم کی طرف جانے والے راستے کھلے ہوئے ہیں، ان کی
اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسی بات سے ہمارا معاشرہ بے نیاز ہے؛
بلکہ جرم سرزد ہونے کے بعد سزا اور قانون کی گرفت کے لیے سوچا جاتا ہے۔
خواتین
خصوصاً نوجوان لڑکیاں آزادی اور فیشن کے نام پر بن سنور کر، سج
دھج کر نیم عریاں لباس میں اپنے حسن کی نمائش کرتی
ہیں اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور ان کی
اپنی مرضی کے مطابق وضع قطع اختیار کرسکتی ہیں۔
اس پر پابندی لگانے یا اعتراض کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
دراصل یہ ان کی نادانی اور غلط فہمی ہے۔ مرد کی
خواہش ہوتی ہے کہ خواتین یا لڑکیاں زیادہ سے زیادہ
برہنہ ہوں؛ تاکہ ان کے حسن کا نظارہ کرکے لطف اندوز ہوسکیں، ٹی وی
چینل پر اخبار و رسائل میں جو اشتہار ہوتے ہیں ان میں
عورتوں کو پرکشش بناکر برائے نام کپڑوں میں دکھایاجاتا ہے۔ ہر
طرح کے اشتہار کے لیے عورتوں کے حسن کا استعمال کیا جاتا ہے؛ یہاں
تک کہ بلیڈ کے اشتہار میں بھی عورت کے حسن سے فائدہ اٹھایا
جاتا ہے، سنیماؤں اور ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں
عورت کے حسن کو زیادہ سے زیادہ نکھار کر نیم عریاں لباس میں
پرکشش بناکر پیش کیا جاتا ہے، ان بے ہودہ اور شرم ناک مناظر جنسی
جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں، ان مناظر پر کوئی روک تھام نہیں
ہے؛ البتہ نتیجے کے طور پر کوئی حرکت یا فعل سرزد ہوجائے تو
قانون میں سزا رکھی گئی ہے۔
مخلوط سوسائٹی میں مرد اور
عورت کے آزادانہ میل ملاپ پر کوئی پابندی نہیں ہے؛ لیکن
اگر وہ ہوس کا شکار ہوجائے تو پھر قانون کی گرفت! دفتر میں کام کرنے
والی خواتین اپنے مکمل میک اپ کے ساتھ شمعِ محفل بنی رہتی
ہیں؛ لیکن اگر کوئی حرکت سرزد ہوجائے تو قانون حرکت میں
آسکتا ہے۔
مخلوط تعلیم کے مطابق اسکول اور
کالج میں بالغ لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتی ہیں، کھیل
کود میں حصہ لیتی ہیں، پارکوں سنیماؤں میں
ساتھ رہتی ہیں؛ لیکن اس درمیان دونوں سے کوئی فعل
سرزد ہوجائے تو سماج اور قانون کی نظر میں مجرم ہے۔ سب سے اہم
اور شرم ناک بات یہ ہے کہ ملک میں شراب کھلے عام بیچی اور
پی جاتی ہے، شراب اور بیئر بار بغیر کسی روک ٹوک کے
حکومت کی اجازت نامہ پر اپنا کاروبار چلارہے ہیں، شراب کو ام الخبائث
کہا جاتا ہے، جو تمام جرائم اور خبائث کی جڑ ہے اور ملک میں ہونے والے
اس طرح کے واقعات میں اس کا کردار نمایاں ہی نہیں؛ بلکہ
بہت اہم ہے۔ یہ ہے آج کا ماحول کہ برائی کی طرف جانے والے
راستے تو کھلے ہیں؛ لیکن نتائج کو بھگتنے کی بجائے سخت سزا کی
مانگ کی جارہی ہے۔
اسلام برائیوں اور جرائم کی
طرف جانے والے راستوں پر پہلے پابندی عائد کرتا ہے، ایک صالح اورپاکیزہ
ماحول مہیا کراتا ہے، اس کے بعد سزا تجویز کرتا ہے۔ مثلاً:
* شراب اور دوسری منشیات کو حرام قرار دیتا ہے۔
* مرد اور خواتین کے آزادانہ میل ملاپ پر پابندی
عائد کرتا ہے!
* خواتین کو ساتر لباس کا پابند بناتا ہے۔
* پردہ لازمی قرار دیتا ہے۔
* مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیتا۔
اس تعلیم کے بعد صالح ماحول اور
معاشرہ میں کوئی بے حیائی اور بے ہودہ کام کرے تو عبرت
ناک سزا تجویز کرتا ہے۔
زانی اگر غیرشادی شدہ
ہے تو اس کو سو (۱۰۰) کوڑے
کی سزا ہے، اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس کو سنگ سار کردینے کی
سزا ہے۔ یہ سزائیں چوراہوں پر عوام کے درمیان دی
جاتی ہے؛ تاکہ اس عبرت ناک سزا کے بعد کوئی اس طرح کی حرکت کی
جرأت نہ کرسکے۔
جب تک معاشرے کی تعمیر توحید
یعنی اللہ کے ایک معبود ہونے کے کہ وہی تمام انسانوں کا
اور پوری کائنات کا خالق، مالک، معبود اور رب ہے اور آخرت میں ہر شخص
اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا، یہی وہ خوف وڈر ہے جو اسے برائیوں
سے بچاسکتا ہے، اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہ
السلام کو مبعوث کیا، آخری نبی محمد … نے اللہ کی ہدایت
کی روشنی میں صالح معاشرہ قائم کیا جو اپنی مثال آپ
ہے، جب تک مندرجہ بالا تعلیمات کی روشنی میں ماحول اور
معاشرہ کی اصلاح و تعمیر نہیں ہوگی جرائم اور خبائث کا
خاتمہ نہیں ہوگا۔ آج کل جرائم کا انبار لگا ہوا ہے، وہ ہمیشہ
نئے انداز میں ہر دور میں اپنا سرابھارتے رہتے ہیں۔ رشوت
خور اور غیرذمہ دار انتظامیہ غیراخلاقی ماحول میں
اس کی اصلاح ناممکن ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ مندرجہ بالا خطوط پر
سوچا جائے، اس کے بغیر جرائم اور برائیوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ قوم پر رحم
فرمائیں اور صحیح خطوط پر سوچنے، غور کرنے اور عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے، (آمین)
***
----------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2 ،
جلد: 97 ، ربیع الثانی 1434 ہجری مطابق فروری 2013ء